وجہہ کریم

وجہہ کریم

جب کبھی میں سفر ذات کی
تیرگی میں گم ہوئی
تو سورج کی اُجلی دھوپ نے
ہاتھ پکڑ کر میرا
تیرے چہرے کا روپ دکھایا
جب کبھی اداسیوں میں گھرے
کھڑکی بھی بند کر لی من کی
تو بادِ فلق نے سرسراتے ہوئے
تیرے نرم لہجے میں
پکارا مجھے
جب کبھی دل بوجھل ہوا
گرد سے اَٹا پڑا
تیرے ہاتھوں نے ساری کثافت جھاڑی
اپنی اوک میں بھر کر سینے میں رکھا
پھر سے دھڑکنا سکھایا
جب کبھی گھری مایوسیوں میں
تیری نرم مسکراہٹ نے کہا
اپنے سارے میل کچیل
میری رحمت کے ابدی سمندر میں دھو لو
تمھاری ڈور پکڑ کر
تشکیک کی کھائی کے اوپر
میں انا الحق کی گھاٹیوں سے
استغفار پڑھتے گزری
تم مجھے ہر جگہ ہر آن ملے ہو
اے مہربان چہرے والے
زندہ و قائم دائم

سبین علی